Islahih_writer

Add To collaction

کچے گھر کے ملنے میں کتنی داستانیں دفن ہوگئیں ؟

یہ  ایک گاؤں کی گلی ہے ،اس کے دونوں طرف گھر ہیں ۔ ایک گھر آباد ہے ، ایک ویران ہے ، آباد گھر پکا ہے، نئے انداز سے بنا ہے، اس کے احاطے میں مہندی کا درخت ہے جو باہر سے نظر آرہا ہے ، اس کی پتلی شاخیں گلی میں لٹکی ہوئی ہیں ۔سامنے ویران گھر کا ملبہ ہے۔ بارش سے پہلے یہ ملبہ نہیں تھا ۔ گاؤں کے اس حصے کے ’بچے کھچے‘ کچے گھروں میں سے ایک تھا، خالی تھا ، کوئی رہتا نہیں تھا، مرمت نہیں ہوئی تھی ۔ اسی ستمبر کے دوسرے عشرے میں لگاتارگرتی بار ش کی بوندوں کے سامنے اس کی ایک نہ چلی، ایک دن اسے تاش کے پتو ں کی طرح بکھر نا پڑا ۔ اب وہاں ٹیلہ نما مٹی کا ڈھیر ہے ۔ اس میں بہت سی داستانیں دفن ہوگئی ہیں۔ اس کی تہوں میں ایک عہد کا قصہ ہے ۔ پرانے لوگ اس ڈھیر پر کھڑے ہوتے ہیں یا اس کے قریب سے گزرتے ہیں توان کا ماضی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ 
 اسی کچے گھر کاایک حصہ دالان تھا جہاں گھریلوکام کا ج سے فرصت کے بعد خواتین کی محفل جمتی تھی ۔اُ س زمانے میں محلے پڑوس کی عورتیں گھومنے آتی تھیں تو انہیں بھی یہیں بٹھایا جاتا تھا، گپ شپ ہوتی تھی ، کچھ اپنی اور کچھ اِن کی اُن کی بھی سنی سنائی جاتی تھی۔ اس زمانے میں کام زیادہ تھا ، اس لئے کام کی باتیں زیادہ ہوتی تھیں ، گھوم پھر کر وہی بنائی، کڑھائی ،سلائی، کھیتی باڑی اور مویشی وغیرہ آجاتے تھے ۔ اس دور میں’ کھو جی پتر کارتا‘(تفتیشی صحافت) تھی ، خواتین کی رپورٹر ہوتی تھیں۔ وہ اپنے شوق سے گھر گھر جاتی تھیں اور دالان دالان کا چکر کاٹتی تھیں ۔ یہ’ رپورٹر‘ کس کا تکیہ دید ہ زیب ہے؟ کون سے محلے میں سب سے الگ ’ڈلیا ‘ بنایا گیا ہے؟ محلے میں کس خاتون کے بسترکےنقش ونگار زیربحث ہیں ؟ کس گھرمیں تکیہ کے اشعار کی ڈائری ہے ؟کس گھر کی لڑکیاں چادروں پر ایک سے بڑھ کر ایک ’بیل بوٹے ‘ بناتی ہیں؟جیسے سوالوں کے جواب تلاش کرتی تھیں۔دالان میں بیٹھے بیٹھے انہیں سا س بہو کے اچھے بری رشتے کی کہانیاں بھی مل جاتی تھیں جنہیں وہ کانا پھوسی کے اندازمیں اپنی سہیلیوں اور ہم جولیوں کو بتادیا کرتی تھیں۔ سچ پوچھئےتو ان رپورٹروں کواسی کام سے سکون ملتا تھا ۔ اِن کے اُن کے دالان میں جانے ہی سے انہیں قرار آتا تھا ۔   
  اسی دلان میں ’پاندان‘ رکھا رہتا تھا۔ اس کے قریب بڑی بوڑھیاں بیٹھی رہتی تھیں،نگرانی کرتی تھیں، بچوں کو پان کھانے سے روکتی تھیں، حالانکہ خود منہ بھر بھر کے پان کھاتی تھیں اور گھر والوں کو بھی کھلاتی تھیں۔ 
 اسی طرح کچے گھر کے باہر ایک بیٹھکا ( بیٹھک ) ہوتا تھا ۔اس میں چاپارئیاں بچھی رہتی تھیں جو کبھی خالی نہیں رہتی تھیں ، ہر وقت کوئی نہ کوئی بیٹھا رہتا تھا، حقہ کا دور چلتا تھا ، گھر سے چائے بن کر آ جاتی تھی، پان کی بھی فرمائش ہوتی تھی۔ پان لانے کیلئے عام طور پر بچے یا نوجوان گھر میں بھیجے جاتے تھے ، وہ سیدھے دالان میں پہنچتے تھے اور کہتے تھے :’’ پان لگا ی دا بہرواں سب بیٹھا ہے ..دادا مانگن ہیں..‘‘ (پان لگا دیجئے ،باہر سب بیٹھے ہیں ، دادا مانگ رہے ہیں)  اس کے بعد یہ سوال ہوتاتھا:’’کے ٹھو پان چاہی؟‘‘( کتناپان چاہئے؟) پھر ’کھڑ ‘کی آواز کے ساتھ پاندان کھلتا اور کچھ دیر میں جتنے پان کی فرمائش ہوتی تھی، بن کر تیار ہوجا تاتھا۔رات میں سونے تک یہ کاروبار چلتا رہتاتھا۔ 
   اسی کچے گھر میں ایک طاق ہوتا تھا ، اس کی اہمیت تھی، اس زمانے کےکاریگر بھی طاق بنانے میں اپنے فن کامظاہرہ کرتے تھے۔ دیوار بناتے وقت ان کا ہاتھ تیزچلتا تھالیکن طاق بناتے وقت ان کی رفتار بہت کم ہوجاتی تھی۔ وہ ہاتھ روک کر روک کر طاق بناتے تھے، گھنٹوں سجاتے سنوارتے تھے، مٹی پر پھول پتی بھی بناتے تھے، محراب نکالتے تھے۔ بتاتے ہیں کہ طاق کےبغیر کچے گھر کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اسی سے گھر کی خوبصورتی کا اندازہ لگایا جاتا تھا ۔  طاق پر سامان رکھا جاتا تھا ، اس پرتیل صابن اورکنگھی سب کچھ ہوتاتھا۔ اس زمانے کی اہم ترین چیزوں میں سے ایک ’چربتی‘ (ٹارچ) بھی اسی پر رکھی رہتی تھی ۔ ریڈیو بھی اسی پر ہوتا تھا، بڑے بوڑھوں کی عینک کا ٹھکانہ بھی طاق ہی تھا ۔ اخبار، کتابیں اور رسائل بھی ہوتے تھے ، اسی لئے کچھ بھی گم ہونے پر طاق ٹٹولے جاتے تھے ۔ادیبوں اور شاعروں کے طاق پر بھی زیرمطالعہ کتابیں ہوتی تھیں، ایک قلم ہوتا تھا ، کاغذ رہتا تھا، دوستو ں یاروں کے تازہ خطوط ہوتے تھے، انہیں پڑھنے کے بعد لوہے کے صندوق میں رکھ دیا تھا ۔
کچے گھر کے ایک کونے میں جانوروں کا چارا ’بالنے‘والی مشین ہوتی تھی ۔ آج بھی یہ مشین بہت سے گھروں میں ہے۔گھر کے کونے میں خاموش کھڑی رہتی ہے ۔ عام طور پر دن میں ایک ہی مرتبہ چلتی ہے۔  پرانے لوگ صبح ۱۰؍ بجے سے پہلے کھیت سے چارے کا بوجھ (گٹھر )کاٹ کر لاتے تھے ، مشین کے قریب رکھ دیتے تھے ۔دوپہر میں چارے کابوجھ کھولا جاتا تھا ۔ ایک شخص مشین کے آگے کھڑا ہوجاتاتھا ، ایک پیچھے .. ایک چارالگا تا تھا ، ایک مشین گھماتاتھا ۔ اس طرح کچھ دیر میں چارا با ل دیا جاتا تھا ۔ بچوں کو بھی اس میں مزہ آتاتھا ، وہ بھی بڑوں سے منت سماجت کرکے مشین چلا لیتے تھے۔ 
  کچے گھر کے اوپر ایک چھت ہوتی تھی ، اسے پوروانچل میں’دو چھتی‘ کہا جاتا تھا ۔ اس پر چڑھنے کیلئے بانس کی سیڑھی استعمال کی جاتی تھی یا کچے اینٹ کی سیڑھیاں بنائی جاتی تھیں۔ دوچھتی پر گھر کے بڑے بڑے صندوق اورغلہ وغیرہ رکھا جاتا تھا ۔ اسی کے ایک حصے میں بھو سولا ( بھوسا رکھنے کی جگہ ) ہوتا تھا جس میں مویشیوں کا سال بھر کا بھو سا رکھا رہتاتھا ۔
 گاؤں کے کچے گھر کے ملبے میں اور بہت بھی کچھ دب گیا ہے۔ کیفی اعظمی کی زبان میں کوئی آج سےسوسال بعد بیلچے لائے گا اور زمین کی تہیں کھودےگا تو پتہ چلے گا کہ کہا ں کیا دفن ہے ؟اس کے سامنے ایک تہذیب ہوگی، ایک طرززندگی ہوگا ۔

   16
12 Comments

Vinita varma

24-Jan-2022 03:06 PM

Good

Reply

Zoya khan

22-Jan-2022 04:13 PM

Good

Reply

fiza Tanvi

17-Jan-2022 08:03 PM

Good

Reply